یونان جانے والی کشتی ڈوبنے کے ایک واقعے میں 40 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ 75 کو بچا لیا گیا۔ یہ واقعہ ہفتے کے روز ترکی کے مغربی ساحل کے قریب پیش آیا۔ یہ اطلاع مقامی اہل کاروں اور ترکی کے ’دوگن‘ خبر رساں ادارے نے دی ہے۔
گذشتہ سال 10 لاکھ سے زائد افراد بطور مہاجر اور پناہ گزیں یورپی یونین کے ملکوں میں پہنچے، جب کہ 3600 ہلاک و لاپتا ہوئے، جس کے نتیجے میں یورپی یونین نے شنیگان ویزے کی کھلے دروازے کی پالیسی پر دو سال کے لیے پابندی لگا دی ہے۔
’ڈوگن‘ کی خبر کے مطابق، ترک ساحلی محافظ تلاش اور امداد کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کشتی 17 میٹر لمبی تھی، جس میں سےکم از کم 120 افراد اُس وقت موجوں کی زد میں آئے جب ایوک کے ساحل کے قریب کشتی ڈوب گئی، جو یونانی جزیرے، لیسوس کے قریب کا قصبہ
ہے۔
ایوک کے میئر، محمد انل ساہین کے مطابق، ’’مجھے ڈر ہے کہ یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اس وقت غوطہ خوروں نے تلاش کا کام جاری رکھا ہوا ہے‘‘۔ یہ بات سی این این ترک نیوز چینل نے ٹیلی فون پر بتائی۔
بقول اُن کے، ’’ڈوبتے افراد کی آوازوں پر مقامی لوگ نید سے بیدار ہوئے۔ صبح سویرے سے امداد اور تلاش کا کام جاری ہے۔ لیسبوس کے ساتھ ہمارا ساحل 80 کلویٹر طویل ہے۔اس لیے سارے علاقے پر کنٹرول کرنا مشکل معاملہ ہے‘‘۔
ڈوگن کے مطابق، ہلاک ہونے والوں میں کم از کم پانچ بچے تھے، جب کہ بچ جانے والوں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہے، جنھیں اسپتال داخل کرادیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اِن مہاجرین کا تعلق شام، افغانستان اور میانمار سے ہے۔